مجھے چھبیس فروری کی اس واقعے نے اس تحریر پر مجبور کیا ہے کہ کوئٹہ میں صدر زرداری کے دورے کے موقع پر اہم شاہراہوں کی دو گھنٹے تک ناکہ بندی کے دوران ہزاروں شہری متاثر ہوئے اور ایک بھائی اپنی بہن کو بر وقت اسپتال نہ پہنچا سکا۔
وی وی آئی پی سکیورٹی پر مامور سپاہیوں نے ان کی ایک نہ سنی اور رکشے میں ہی عورت نے بچے کو جنم دے دیا۔ اس کے بعد ہی ہمارے ذہین سکیورٹی اہلکاروں نے رکشے کو سڑک پار کرنے کی اجازت دی۔
اگرچہ حکومتِ بلوچستان نے اس واقعہ پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے بچے کی پرورش کے لیے ایک لاکھ اور صدر زرداری نے پانچ لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس بچے کو اپنے خرچ پر گریجویشن تک تعلیم دلانے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر کیا اپنا احساسِ جرم چھپانے کے لیے صرف ایک بچے کو نوازنے سے لاکھوں شہریوں کو درپیش وہ مسائل ٹھیک ہوجائیں گے جو وی وی آئی پی موومنٹ سے پیدا ہوتے ہیں؟
رکشے میں بچے کی پیدائش کے واقعے سے چار روز پہلے جنوبی پنجاب میں چولستان کار ریلی کے موقع پر صوبائی مشیر ذوالفقار کھوسہ کے وی آئی پی سکواڈ میں شامل ایک پولیس وین نے ایک موٹر سائیکل سوار کو کچل کر ہلاک اور دو کو شدید زخمی کر دیا۔ گذشتہ ماہ لاہور میں چیف سیکرٹری پنجاب کی گاڑی نے ایک پیدل ریٹائرڈ کرنل کو ٹکر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کراچی کی شاہراہ فیصل پر وی وی آئی پی موومنٹ کے موقع پر سن دو ہزار چھ سے اب تک ایک بیمار لڑکی سمیت کم ازکم پانچ افراد بر وقت اسپتال نہ پہنچائے جانے کے سبب ٹریفک جام میں پھنس جانے والی ایمبولینسوں میں دم توڑ چکے ہیں۔
کیا کسی وی وی آئی پی کو اندازہ ہے کہ اس کی نقل و حرکت کے لیے پوری پوری شاہراہوں اور علاقوں کی گھنٹوں پہلے ناکہ بندی کے نتیجے میں کتنے ہزار لوگ ہیں جو بر وقت دفاتر اور اپنے اپنے کام کاج پر نہیں پہنچ سکتے۔ کتنے بچے ہیں جو سکول جا یا آ نہیں سکتے۔ کتنے مسافر ہیں جو ٹرینوں اور فلائٹوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
کیا کبھی ان وی وی آئی پیز نے ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زن زن کرتی اپنی بلٹ پروف گاڑی کے کالے شیشوں سے یہ دیکھنے کی زحمت کی ہے کہ ان کے محافظوں سے بھری گاڑیاں کس طرح عام لوگوں کی چلتی ہوئی کاروں اور موٹر سائیکلوں کو بندوق کی نالیں لہرا لہرا کر، ہوا میں مکے اور گالیاں اچھالتے ہوئے زگ زیگ راستہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور اس لمحے وی وی آئی پی سکواڈ میں شامل ایک معمولی کمانڈو بھی سامنے والے کو کیڑا مکوڑا اور خود کو خدا سمجھ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ اسی کیڑے مکوڑے کے دیے گئے ٹیکس سے ہی اس چھوٹے سے فرعون کے گھر کا چولہا جلتا ہے اور اسی کیڑے مکوڑے کے ووٹ سے وی آئی پی کو بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھنا نصیب ہوتا ہے۔
اس پر طرفہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ بیان کہ بچہ تو کہیں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ رکشے میں بھی اور جہاز میں بھی۔ اس کی ذمہ داری وی آئی پی موومنٹ پر نہیں ڈالی جا سکتی ہے۔ کیا وزیرِ اعظم تب بھی ہنستے ہوئے یہی بات کرتے اگر انکے کنبے کی کسی عورت کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا؟ اور جنابِ والا جس طرح انسان کہیں بھی پیدا ہوسکتا ہے اسی طرح کہیں مر بھی تو سکتا ہے۔ پھر ان وی آئی پیز کو اپنی زندگی محفوظ رکھنے کے لیے اتنے کمانڈوز اور بلٹ پروف سکواڈ کی آخر کیا ضرورت ہے؟
اگر کوئی چاہے تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے یوں حل ہوسکتا ہے کہ وی وی آئی پیز اپنی نقل و حرکت کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کریں یا ان ممالک کی سکیورٹی ایجنسیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں جو اپنے وی وی آئی پیز کو شہری زندگی معطل کئے بغیر مکھن میں سے بال کی طرح بحفاظت نکال کے لے جاتی ہیں۔
مگر مجھے اور مجھ جیسے کروڑوں شہریوں کو معلوم ہے کہ پرنالہ یونہی بہتا رہے گا۔ کیونکہ ہمارا حکمران طبقہ فیوڈل ذہنیت رکھتا ہے۔ جس میں ہٹو بچوکی صداؤں، شان و شوکت کے مظاہرے اور طاقت و برتری کے اظہار کو لاکھوں کروڑوں عام لوگوں کی مشکلات پر ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے عام آدمی شاہی ہاتھی کے پاؤں تلے کچلا جاتا تھا آج بلٹ پروف گاڑی کے نیچے آجاتا ہے۔